Online Urdu Afsana Mora Saiyan by S A Iram Social Reforms Based Urdu Afsana In Free Pdf format Complete Posted on Novel Bank.
"ساٶن بیتو جاٸے پہروہ
سانون بیتو جاٸے پہروہ
من میرا گھبراٸے
نیند ہمیں نہیں آٸے
مورہ سٸیاں موہ سے بولے
میں لاکھ جتن کر ہاری
مورہ سٸیاں موہ سے بولے نہ"
ویران کمرے میں شفقت امانت علی کی آواز گونج رہی تھی جہاں میر تقی میر کی شعروں سے بھری کتابیں کسی ساکن وجود پہ بین کررہی تھیں۔ میز پر چاٸے کا خالی کپ موٹی فریم والی عینک اور بوسیدہ کرسی پہ بیٹھا وجود کسی وحشت کی جیتی جاگتی تصویر سے کم نہ تھا۔
"بابا آپ یہاں کیا کر رہے ہیں اور آپ رو رہے ہیں کیا ہوا سب ٹھیک تو ہے
بابا آپ کچھ بول کیوں نہیں رہے آپ ٹھیک تو ہیں بولیں بابا".
حیدر باپ کی حالت دیکھ کے پریشان ہو چکا تھا۔
میں ٹھیک ہوں بیٹا تم جاٶ یہاں سے مجھے کچھ دیر اکیلا رہنے دو۔
انور صاحب نے اٹکتے لہجے سے کہا۔
جی بابا۔
حیدر کو وہاں سے اٹھنا ہی پڑا۔
کمرے سے باہر قدم نکالتے ہوٸے حیدر کی نظر اس ویران کمرے کی جانب اُٹھی جہاں تاریکی بے شمار تھی لیکن آدھ کُھلے روشن دان سے سورج کی کرنیں کمرے کو سنسان ہونے سے روک رہی تھیں۔
"انور آپ رو رہے ہیں کتنی بار کہا ہے کہ آپ اداس مجھے بلکل اچھے نہیں لگتے".
انور صاحب کے کانوں سے ٹکرانے والی آواز حلیمہ کی تھی۔ لیکن وہ آواز انکےشعور کے کسی پہلو سے اُٹھی تھی۔
حلیمہ مجھے معاف کردو!!!
حلیمہ میں تمہارا مجرم ہوں
مجھے معاف کردو۔
انور صاحب کی آواز انکے خلق میں دب چکی تھی۔
کچھ ہی دیر میں وہ ہوش و حواس کھو چکے تھے۔
کچھ دیر بعد حیدر چاٸے لیے کمرے میں پہنچا تو انور صاحب کو بے ہوش پایا۔
پریشانی کے عالم میں حیدر فٹا فٹ انور صاحب کو ہسپتال لایا۔
"بابا آپ ٹھیک تو ہیں اور میں آپ کے لیے سوپ لایا ہوں کل آپ کو ہسپتال سے چھٹی مل جاٸے گی ان شاء اللہ".
حیدر باپ کو ہوش میں دیکھ کے پرسکون ہو چکا تھا۔
اب وہ بابا کے ساتھ ہلکی پھلکی گفتگو میں مشغول ہو چکا تھا۔
دل ہی دل میں حیدر یہی سوچ رہا تھا کہ آخر بابا کو کیا پریشانی ہے۔ ڈاکٹرز نے حیدر کو سختی سے منع کیا کہ وہ انور صاحب کو پریشان نہ ہونے دیں اور انکے کھانے پینے کا خیال رکھیں۔
۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔
آو گے جب تم او ساجنا انگنہ پھول کھلیں گے
برسے گا ساون جھوم جھوم کہ
دو دل ایسے ملیں گے
نینا تیرے کجرارے ہیں نینوں پے ہم دل ہارے ہیں
انجانے ہی تیرے نینوں نے وعدے کیئے کئی سارے ہیں
سانسوں کی لہر مدھم چلے توسے گئے برسے گا ساون جھوم جھوم کہ دو دل ایسے ملیں گے
چندا کو تاکوں راتوں میں ہے زندگی تیرے ہاتھوں میں
پلکوں میں جھلمل تارے ہیں آنا بھری برساتوں میں
سپنوں کا جہاں ہوگا کھلا کھلا برسے گا ساون جھوم جھوم کے دو دل ایسے ملیں گے۔
انور صاحب ہسپتال سے آ کے چپ سے ہو چکے تھے حیدر باپ کا سایہ بن کے رہتا تھا۔ ہر پل باپ کو خوش رکھنے کی کوشش لیکن اتنا سب کر کے بھی حیدر کو باپ کے چہرے پہ اتری وحشت کی سمجھ نہیں تھی۔
آخر یہ کونسا صدمہ تھا جو انور صاحب کو چین نہیں لینے دے رہا تھا۔
"بابا آپ کو ہمیشہ میر تقی میر اور غالب کی شاعری ہی کیوں پڑھتے حلانکہ آج کل کے شاعر ان سے بھی کمال".
حیدر کو معلوم تھا بابا کو شاعری بہت پسند ہے اس لیے باپ کا دیھان بٹانے لگا۔
"بے خودی بے سبب نہیں غالب
کچھ تو ہے جسکی پردہ داری ہے
پھر اسی بے وفا پہ مرتے ہیں
پھر وہی زندگی ہماری ہے".
انور صاحب نے کرب سے شعر کو اپنے مردہ ہونٹوں سے آزاد کیا۔
"حیدر مجھے شاعروں سے اور شاعری سے رتی برابر بھی لگاٶ نہیں تھا۔ یہ تو حلیمہ ہی تھی جو میری طرف سے ہوٸی ہر ظلم کو شاعری میں اُڑا دیا کرتی تھی".
انور صاحب کی پلکیں نم ہو چکی تھیں۔
بابا مما کو شاعری سے واقع ہی لگاٶ تھا؟
حیدر نے دلچسپی سے پوچھا۔
وہ خود بھی شاعری کیا کرتی تھی۔
سچی پاپا اور یہ بات مجھے آپ آج بتا رہے۔
حیدر بے یقینی سے باپ کو دیکھ رہا تھا۔
غالب اور میر کو ہی پڑھا کرتی تھی حلیمہ جہاں غالب یا میر کا زکر ہوتا کملی وہاں کٸی کٸی گھنٹے بولا کرتی تھی۔
انور صاحب مسکرا دیے۔
حیدر کے لیے اپنی ماں کا زکر باپ کے منہ سے سن کے عجیب لگا کیوں تا عمر وہ بس اپنی ماں کے نام اور چند تصویروں سے واقف تھا۔
پتہ ہے حیدر تمہاری ماں کیا کہا کرتی تھی۔
کیا کہتے تھے مما؟
حیدر نے اشتیاق سے پوچھا۔
وہ کہا کرتی تھی میں اپنے بچوں کو محبت کرنے کی اجازت نہیں دوں گی۔
انور صاحب اتنی سی بات کہہ کے رو پڑے۔
انور صاحب نے مسکراتے ہوٸے حیدر کی جانب دیکھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کبھی محسوس تو کر
عالمِ تنہاٸی میں
وحشتِ میر کو
جسکی آنکھوں میں
وحشتِ میر نہ اُترے
وہ سنگ دل کہاں
قابلِ عشق ہوگا!!
انور یہ میرا لکھا ہوا آخری شعر ہے اور یہ شعر میں نے آپ کے لیے ہی لکھا ہے۔ میں نے اپنی زندگی میں آپ سے کبھی کوٸی شکوہ نہیں کیا لیکن آپ اتنے سنگ دل کیسے ہو سکتے کہ میرے چہرے پہ چھاٸی محبت کی وحشت ہی محسوس نہ کر پاٸے۔ میں نے آپ سے محبت کی مگر میری محبت اتنی کمزور تھی کہ آپ محسوس تک نہ کر پاٸے۔ مجھے یاد ہے وہ دن جب میں دلہن بن کے آپ کے گھر آٸی تھی اور آپ نے صاف لفظوں میں کہا تھا کہ آپ مجھ سے نفرت کرتے ہیں آپ کو زبردستی میری زندگی میں لایا گیا ہے۔
"آہ کمالِ ضبط"
آپ کو یاد ہے مجھے آپ بات بہ بات اپنی اور رفعت کی محبت کے قصے سنایا کرتے تھے اور میں ہنس کے وہ قصے بھی سنا کرتی تھی۔ مگر آپ ایسے سنگ دل ثابت ہوٸے کے میری آزماٸش کم نہ کر سکے ۔
"پھر ہوٸے ہیں گواہ عشق طلب
اشک باری کا حکم جاری ہے".
آپ کو یاد ہے آپ نے ایک دن مجھ سے پوچھا تھا کہ میں میر تقی میر کو ہی کیوں پڑھتی ہوں۔ تو میں بس ہنس دی تھی کہ آپ کو شاعری سمجھ آتی ہی کہاں ہے۔
میں میر کو اس لیے پڑھتی تھی انور صاحب کے اسے چاند میں محبوب دیکھاٸی دیتا تھا لیکن اسکے محبوب نے اسکی محبت کو زریورات اور عیش و عشرت کے بدلے میں تول دیا۔
اور مجھے میر کی وحشت کا علم تب ہوا جب رفعت نے آپ کو پیسے کے پیچھے چھوڑا۔
آپ کی وحشت بھی میر سے کم نہ تھی۔
اور مجھے ڈر ہے میرے بعد یہ وحشت آپ کو تنہا ہی نہ سہنی پڑے
حلیمہ انور
انور صاحب نے خط کو بند کرتے ہوٸے کتاب میں رکھا۔
حلیمہ یہ خط میں پڑھ چکا تھا لیکن میری ہمت نہیں ہوٸی تھی کہ تم سے معافی مانگ سکوں!
اور حیدر کی پیداٸش سے چار ماہ بعد تم میرے چہرے پہ وحشتِ میر چھوڑ کے دنیا سے چلی گٸی۔
دیکھو میں آج بھی اس وحشت میں جل رہا ہوں مجھے معاف کردو مجھے معاف کردو۔
انور صاحب کے دل میں درد اٹھ چکی تھی اور آخری ہچکی لیتے ہی وہ اسی ویران کمرے میں دم توڑ چکے تھے۔
ختم شد
Yorum Gönder
Yorum Gönder