Dildoz Mohabbat Novel by Mannat Shah Last Episode


دِلدوز محبت ازقلم منت شاہ آخری قسط۔
عابش نے اس کی بات سنتے ہی اپنی کن پٹی سے پسٹل ہٹا کر اپنی ماں کے دل کے مقام کا نشانہ لیا تھا۔۔۔۔
نو عابی۔۔۔ صبا نے گھبراتے ہوئے منع کیا تھا۔۔۔۔
عابش۔۔۔ ٹریگر پر اس کی انگلی کی مضبوطی دیکھ کر گلشن بائی نے بے یقینی سے اسے دیکھا تھا۔۔۔ 
وہ بیٹا جس کی جان کی خاطر وہ پل پل تڑپی تھی وہ اپنے ہاتھوں سے اس کی جان لینے لگا تھا۔۔۔۔
ٹھاہ۔۔۔۔۔۔۔۔اس نے اچانک پسٹل کا رخ اوپر کی طرف کیا کیا تھا اور فضا میں گولی کی آواز گونجی تھی۔۔۔۔
پھر اس نے دوبارہ گن کو اپنی کن پٹی پر رکھا تھا۔۔۔
عابی کیا کر رہے ہو واپس کرو مجھے گن۔۔۔ سب کے پسینے چوٹے تھے۔۔۔۔۔
زندگی میں اگر میرے لیے اب کوئی سب سے بے اعتبار رشتہ ہو گا وہ ہو گا ماں کا۔۔۔
حالانکہ ماں اور بے اعتباری۔۔۔۔ جانور بھی ہو گا تو وہ اس سے انکار کرے گا۔۔۔۔ کیونکہ ماں تو جانور کی بھی اس کو چاٹتی ہے پیار کرتی ہے پچکارتی ہے۔۔۔۔ اس کے لیے تکلیفیں اٹھاتی ہے اسے شکاریوں سے لڑنا سکھاتی ہے۔۔۔۔دنیا میں اچھائی" برائی" کا فرق سمجھاتی ہے۔۔۔۔
رشتوں کی پہچان بتاتی ہے۔۔۔۔ مگر نفرت اور دلدل کوئی ماں کیسے دیکھ سکتی ہے ان میں گھرا ہوا اپنے بچوں کو۔۔۔
  نفرت ہے مجھے اس رشتے سے جو میرے اور آپ کے درمیان ہے ماما ۔۔۔۔۔میں اپنی ہر سانس کے ساتھ اس رشتے سے نفرت کروں گا اس کوکھ سے نفرت کروں گا جس نے مجھے جنم دیا۔۔۔  حلال اور حرام کی تمیز بھلا کر۔۔۔۔ رب کی بتائی گئی حدود بھلا کر۔۔۔۔
کاش میں پیدا ہوتے ہی مر جاتا آپ کی رنگین راتوں کا وجود بن کر یوں سانسیں نا لیتا۔۔۔ میرا باپ شہاب تھا مگر میرا ڈی این اے میچ سیٹھ وجاہت کے ساتھ ہوا۔۔۔۔۔ میرے لیے اس سے بڑا کوئی خنجر ہے جس نے میرے جسم کو جگہ جگہ سے کاٹ کر میرے ان کاٹے ہوئے زخموں میں مرچیں بھر دیں۔۔۔۔
دنیا میں سب سے بڑی تکلیف پتہ کیا ہوتی ہے آپ کے وجود کا بےنام ہونا۔۔۔۔۔ماما مجھے بتائیں میں کتنی اور کس قدر گھن کھاؤں اپنے وجود کے ساتھ ۔۔۔۔۔۔
اس نے روتے ہوئے کہا تھا۔۔۔ اس کا پورا وجود لرز رہا تھا۔۔۔۔اس کے لفظ کسی مٹی کے ٹوٹے گھڑے کی کنکروں کی بازگشت جیسے تھے۔۔۔۔۔ٹریگر پر انگلی کا دباؤ ہنوز موجود تھا۔۔۔۔
عابش مجھ سے غلطی۔۔۔۔
نہیں ماما وہ غلطی نہیں تھی وہ سب گناہ تھا۔۔۔۔۔ کبیرہ گناہ۔۔۔۔۔ اور مجھے بھی گناہگار بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی آپ نے۔۔۔۔ مجھے ایسے لگتا ہے میرا وجود اس جانور کے جیسا ہے جس کا نام لینا بھی اسلام میں گناہ ہے۔۔۔  میں گناہ ہوں آپ کا ماما۔۔۔۔
دیکھیں ماما آپ کا گناہ آپ کے سامنے کھڑا ہے۔۔۔۔
وہ لال سرخ آنکھوں میں اپنے ٹوٹے وجود کے آنسو لیے پاگلوں کی طرح رو رہا تھا۔۔۔۔
میں کیا کرو ماما۔۔۔ میں خود کو کیا نام دو جس کا وجود ہی گمنام ہے۔۔۔۔
گمنام عابش شہاب۔۔۔ نہیں گمنام عابش وجاہت۔۔۔ ن۔۔۔۔ن۔۔۔۔ن۔۔۔نہیں حقارت زدہ عابش۔۔۔۔ 
میں کیا کروں۔۔۔۔ اپنے دل سی اپ کی محبت کو مٹا نہیں پاہ رہا مگر میرے دل میں آپ کے لیے نفرت بڑھتی جا رہی ہے۔۔۔ یہ ایک ایسا لاوا ہے جو مجھے اندر ہی اندر جلا رہا ہے۔۔۔ اس ناسور کے ساتھ ہی میں زندہ دفن ہونا چاہتا ہوں۔۔۔ 
آپ اریسٹ ہو گئیں۔۔۔۔ زیادہ سے زیادہ کیا ہو گا۔۔۔ آپ کو سزا ملے گی پھانسی کی آپ مر جائیں گی۔۔۔۔
مگر نہیں ماما آپ کو اتنی آسان موت کیوں ملے۔۔۔ بیس سالوں سے جن کو پل پل آپ نے موت دی ان کے دکھوں کی بھرپائی میں کروں گا۔۔۔
ایسا زخم لگاؤں کا آپ کی روح پر۔۔۔۔ کے پھانسی سے پہلے ہی آپ مریں گی ہر سانس کے ساتھ آپ کو زندہ رپنے سے زیادہ موت کی آس ہو گی۔۔۔۔ آپ کو کیا لگتا ہے۔۔۔ آپ کے سارے دکھوں کا حل اتنی آسان موت ہے۔۔۔۔۔ ہاہاہاہاہاہا۔۔۔۔ 
آج آپ اپنی آنکھوں سے میری روح کا فنا ہونا دیکھیں پھر آپ کو کسی چیز کی بقا کی حسرت نہیں رہے گی۔۔۔۔ اس نے تلخ ہنسی ہنستے اپنی آنکھوں سے آنسوؤں کو کریدا تھا۔۔۔۔
عابی نہیں پلیز خود کو اذیت مت دو مجھے مار دو۔۔۔ میں نے اپنی محبت کو کھویا۔۔۔ مجھ میں اپنے بیٹے کو اپنے سامنے تڑپتے دیکھنے کی ہمت نہیں خدا کا واسطہ ہے۔۔۔۔ مت تڑپاؤ خود کو۔۔۔۔
وہ اپنے بیٹے سے اس کی ہی زندگی کی بھیک مانگنے لگی تھی روتے ہوئے گڑگڑاتے ہوئے۔۔۔۔
عابش گن نیچے کرو۔۔۔ وہ اس کی طرف قدم بڑھاتے کہہ رہی تھی۔۔۔۔صبا کو اس کے عزائم ٹھیک نہیں لگ رہے تھے اسکی چھٹی حس خطرناک وائبز دے رہی تھی۔۔۔۔
صبا آپی میرے قریب مت ائیے گا ورنہ میں خود کو مار دوں گا۔۔۔۔ اس نے اسے ہاتھ کے اشارے سے روکا تھا۔۔۔۔۔اور اس کے قدم وہیں پر رک گئے تھے۔۔۔ 
  صبا آپی دراب بھائی سے کہیے گا میں نے اپنا حق ادا کر دیا ہے۔۔۔میں اپنی ماں کی کہانی کا وہ کردار ہوں جس نے اپنی سزا خود تجویز کی ہے۔۔۔۔۔ میں اس کہانی کا ووہ کردار ہوں جسے میری ماں کے سوا کسی نے نہیں رونا۔۔۔۔
کیونکہ برائی کا انجام برا ہوتا ہے۔۔۔۔میری جیل میں موجود ٹیبل کے پاس ایک پیپر ہے اس پر میری کچھ وصیت لکھی ہے وہ دراب بھائی کو دیں گی آپ۔۔۔۔۔۔۔۔انعمتہ سے معافی مانگنے کے قابل میں خود کو نہیں سمجھتا۔۔۔۔ کچھ گناہ معافی یا بخشش کے قابل نہیں ہوتے۔۔۔۔ اور میرے گناہ سزا کے مستحق ہیں۔۔۔۔
ایک بات انعمتہ سے ضرور کہیے گامیں نے بچپن سے لے کر اب تک اپنی ہر سانس کے ساتھ اس سے محبت کی ہے۔۔۔۔
درد" مبارک ماما جانی۔۔۔۔
انا" مبارک ماما جانی۔۔۔۔
حسد" مبارک ماما جانی۔۔۔۔
عابش" کی موت مبارک ماما جانی۔۔۔۔۔
الوداع۔۔۔۔نیچے دئے ہوئے آنلائن آپشن سے پوری قسط پڑھیں۔

Related Posts

Yorum Gönder