Hubb e Aneed by Wahiba Fatima Novel Episode 04


حبِ عنید ازقلم واحبہ فاطمہ سلسلہ وار ناول قسط نمبر 04
مناہل تکیے میں منہ دئیے لیٹی تھی۔ جتنا رونا تھا رو چکی تھی۔ اس بے حس ظالم سنگ دل شخص کے لئے جتنے آنسو بہانے تھے بہا چکی تھی۔ رہ رہ کر اس کا حقارت آمیز لہجہ یاد آتا تو وہ دوبارہ ٹوٹ کر بکھر جاتی۔ پہلے تو اس نے اتنی ذلّت سے دوچار کیا تھا کہ ایسی گری تھی کہ دوبارہ اٹھ نہیں پائی تھی۔ 

کچھ لاکھ اختلافات کے باوجود یہ روگی زلیل دل بس میں کہاں تھا جو اس کھڑوس ، سنگدل، بےرحم ،نامہرباں شخص پر کافی سالوں سے مہربان تھا۔ مگر اب کچھ عرصے سے پتہ چلا کہ وہ محبوب شخص کسی اور پر مر مٹا ہے تو اپنے قدم پیچھے ہٹا لیے تھے۔ 

اس ٹوٹ کر بکھرنے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ آج ہی پتہ چلا کہ اس شخص کی نظر میں اس گھر میں اس کی حیثیت اس کا مقام کیا تھا۔ اور دوسرا محبت ہاتھ سے خشک ریت کی طرح پھسل چکی تھی۔ 

پہلے تو دل کو جھوٹی تسلیاں دے کر رکھی کہ کیا پتا اس بے رحم شخص کا دل کبھی تو اس کی جانب سے موم ہو جائے مگر آج پتہ چلا وہ تو کبھی اس کا تھا ہی نہیں۔ 

وہ قسمت کا محبت کی رائیگانی کا تو وار سہہ گئی تھی مگر آج جو اس کی عزتِ نفس کی دھجیاں بکھیر گئیں وہ کسی صورت اسے برداشت نہیں تھی۔ تبھی اپنی بے مقصد زندگی کا ایک مقصد سوچ کر ایک خاص راہ متعین کر کے اب وہ سکون میں تھی مطمئن تھی۔اب اپنے پیروں پر کھڑے ہونا تھا اپنے بل بوتے پر سر اٹھا کر جینا تھا۔ دل میں پختہ ارادے بندھ چکی تھی اور اب بس انھیں ان ارادوں کو پایہ تکمیل تک پہنچانا تھا۔ 

ناصرہ بیگم کمرے میں آئیں تھیں۔ وہ جلدی سے سوتی بن گئی۔ ناصرہ بیگم نے ایک سرد سی آہ بھری۔ حسرت سے اسے دیکھا۔ جس نے بیٹیوں سے بھی بڑھ کر ان خدمت کی تھی۔ اب تو دل کی ارمان حسرت ہی بن چکے تھے۔ قسمت کے آگے کوئی کیا کر سکتا تھا۔ 

جبکہ پاس ہی تقدیر کھڑی مسکرا رہی تھی۔ 

مناہل،،  انھوںنے آواز دی۔ مناہل جو کہ پہلے ہی منہ دھو کر لیٹی ہوئی تھی جلدی سے اٹھ بیٹھی۔
 
جی پھپھو امی،، اس نے نرمی سے نارمل انداز میں کہا۔ 

وہ خاموشی سے اپنی الماری کی جانب گئیں اور اس میں سے ایک پیکٹ نکال کر اس کے پاس آ کر اس کی گود میں رکھا۔ ایک مرتبہ پھر ایک حسرت بھری نگاہ اس پیکٹ پر ڈالی۔ 

کتنی بڑی خواہش تھی یہ پیچ کلر لہنگا انھوں نے خاص اسی محلے کے سلائی سنٹر میں مناہل کے لئے بنوایا تھا۔ یہ سوچ کر کے جب مناہل کا نکاح مرتضیٰ سے ہوگا تب وہ یہ پہنے گی۔ مگر کچھ حسرتیں ناتمام ہی رہ جاتی ہیں۔ 

یہ کیا پھپھو امی،، مناہل نے حیرت سے پوچھا۔
یہ مرتضیٰ کے نکاح میں پہن لینا تمھارے لئے بنوایا تھا میں نے،، ان کے لہجے میں کچھ تو تھا کہ مناہل آگے ایک لفظ بھی نا بول سکی تبھی خاموشی سے پیکٹ تھام لیا۔
نیچے دئے ہوئے آنلائن آپشن سے پوری قسط پڑھیں۔



Related Posts

Yorum Gönder